top of page

وقف بورڈ ترمیمی بل واپس لیا جائے ،آل انڈیا اوقاف ٹرسٹیز ایسوسی ایشن کا مطالبہ



پونے میں منعقدہ قومی کانفرنس میں وقف (ترمیمی) بل 2024 پر تفصیلی گفتگو کی گئی۔ اس کانفرنس کا انعقاد آل انڈیا اوقاف ٹرسٹیز ایسوسی ایشن، مہاراشٹرا ریاست نے کیا تھا۔ کانفرنس میں وقف املاک پر حقوق، وقف بورڈ کی انتظامیہ، اور مرکزی حکومت کی پالیسیوں کے مسلمانوں پر ہونے والے اثرات پر ماہرین نے اپنی آراء پیش کیں۔ اس بل کی مختلف شقوں اور اس کے ممکنہ نتائج پر گہرائی سے بحث کی گئی۔

وقف بورڈ کی کارکردگی:

وقف وہ جائیداد یا ملکیت ہوتی ہے جو مسلمانوں کی طرف سے عطیہ کی جاتی ہے اور جسے مذہبی اور سماجی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ وقف بورڈ اس جائیداد کا انتظام کرتا ہے، اور یہ وقف ایکٹ 1995کی دفعات کے تحت کام کرتا ہے۔ تاہم، مرکزی حکومت کی طرف سے 2024 میں پیش کیے گئے وقف ترمیمی بل نے وقف بورڈ کی جائیدادوں پر قبضہ کرنے کی سازش قرار دی ہے، جیسا کہ کانفرنس میں ماہرین نے دعویٰ کیا۔

بل پر تنقید:

محمد خالد خان نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وقف بورڈ کی کئی زمینوں پر ناجائز قبضہ ہو چکا ہے۔ کئی مقدمات زیر التواء ہیں، اور وقف بورڈ کی کارکردگی میں اصلاحات ضروری ہیں۔ لیکن ان کا دعویٰ تھا کہ یہ نیا بل وقف بورڈ کی جائیدادوں کے انتظام میں کمزوری لائے گا، جس سے جائیدادوں کی تعداد لاکھوں سے کم ہو کر ہزاروں میں آ سکتی ہے۔

بی. جی. کولسے پاٹل سابق جج، نے حکومت پر شدید تنقید کی۔ ان کے مطابق، وقف بل مسلم، دلت، اور قبائلی مخالف پالیسیوں کا حصہ ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ کچھ مسلم رہنماؤں کو بھی ایک مضبوط وقف بورڈ نہیں چاہیے، اور اس کا فائدہ حکمراں جماعت اٹھا رہی ہے۔

ایڈووکیٹ محمود پراچہ نے وقف بورڈ میں بدعنوانی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کچھ غلط کام ہو سکتے ہیں، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ حکومت پورا انتظام اپنے ہاتھ میں لے۔ انہوں نے کہا کہ وقف بورڈ کی کارکردگی بہتر کرنے کے لیے کچھ اصلاحات کی ضرورت ہے، لیکن یہ اصلاحات مسلمانوں کی تجاویز پر مبنی ہونی چاہئیں۔

ماہرین کی رائے:

وقف (ترمیمی) بل کا ماہرین نے جو تجزیہ کیا، اس کے مطابق، یہ بل مسلمانوں کے حق کی وقف جائیدادوں پر مرکزی حکومت کا اثر و رسوخ بڑھائے گا۔ اس بل کی وجہ سے مسلمانوں کے مذہبی اور سماجی حقوق کی خلاف ورزی ہوگی۔ اس کے علاوہ، اس بل کو ہندوستانی آئین کی سیکولر شقوں اور حقوق انسانی کے اصولوں کے منافی قرار دیا گیا۔

آل انڈیا پرسنل لا بورڈ پر تنقید:

آل انڈیا پرسنل لا بورڈ کی پالیسی اور ان کے اقدامات پر بھی گفتگو ہوئی۔حضرت مولانا فضل الرحمٰن مجددی نے مسلم سماج کو درپیش مسائل پر بات کی اور تسلیم کیا کہ آل انڈیا پرسنل لا بورڈ کی پالیسیوں کی وجہ سے مسلم سماج آج تک مشکلات کا شکار ہے۔

اس کانفرنس میں متفقہ طور پر یہ مطالبہ کیا گیا کہ وقف (ترمیمی) بل کو منسوخ کیا جائے۔ ماہرین نے متنبہ کیا کہ اگر بل کو منسوخ نہیں کیا گیا تو مسلم سماج پورے ملک میں احتجاج کرے گا۔ ماہرین نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ اس بل کی وجہ سے وقف املاک کا انتظام مرکزی حکومت کے کنٹرول میں چلا جائے گا۔

اس کانفرنس کا اہتمام سفیان پٹھان،محبوب سید،وزیر بھائی ملانی-ستارا، حافظ صدام-سانگلی، جے کے مستری-سولاپور، مفتی جلال مومن-پونے، اور دیگر عہدیداروں نے کامیابی کے ساتھ کیا ہے۔

Comments


bottom of page