22 October 2024
دہلی،سپریم کورٹ نے ملک بھر کے مدارس کے حق میں ایک بڑا فیصلہ سنایا، جس کے تحت حکومت سے ملنے والی مالی امداد جاری رہے گی اور غیر تسلیم شدہ مدارس کے طلبہ کو سرکاری اسکولوں میں منتقل کرنے کی سفارشات پر روک لگا دی گئی۔ عدالت نے قومی کمیشن برائے تحفظ حقوق اطفال (NCPCR) کی ان سفارشات کو مسترد کر دیا جن میں مدارس کو فنڈنگ روکنے اور طلبہ کو سرکاری اسکولوں میں منتقل کرنے کی بات کہی گئی تھی۔
چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ، جسٹس جے بی پارڈی والا اور جسٹس منوج مشرا پر مشتمل بینچ نے یہ فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ NCPCR کی جانب سے جاری 7 جون اور 25 جون 2024 کی سفارشات پر کوئی عمل درآمد نہ کیا جائے۔ عدالت نے یہ بھی حکم دیا کہ ان سفارشات کی بنیاد پر ریاستوں کی جانب سے کیے گئے تمام احکامات کو بھی معطل کیا جائے۔ یہ فیصلہ جمعیت علماء ہند کی جانب سے دائر کردہ عرضداشت پر سنایا گیا، جس میں اتر پردیش اور تریپورہ حکومتوں کے ان احکامات کو چیلنج کیا گیا تھا، جن کے تحت غیر تسلیم شدہ مدارس کے طلبہ کو سرکاری اسکولوں میں منتقل کرنے کی بات کی گئی تھی۔
جمعیت علماء ہند کی دلیلیں
جمعیت علماء ہند کے وکیل نے عدالت کے سامنے یہ دلیل پیش کی کہ NCPCR اور بعض ریاستی حکومتیں مخصوص مدارس کو نشانہ بنا رہی ہیں اور ان پر غیر ضروری پابندیاں عائد کر رہی ہیں۔ وکیل نے کہا کہ یہ اقدامات نہ صرف مدارس کی خودمختاری کے خلاف ہیں، بلکہ یہ مسلم کمیونٹی کے تعلیمی حقوق کی بھی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ عدالت نے جمعیت علماء ہند کی اس بات سے اتفاق کیا کہ ان ریاستی اقدامات اور NCPCR کی سفارشات پر فوری طور پر روک لگائی جانی چاہیے۔
این سی پی سی آر کا مؤقف
این سی پی سی آر کے چیئرمین پریانک کانونگو نے حالیہ دنوں میں کہا تھا کہ انہوں نے مدارس کو بند کرنے کا مطالبہ کبھی نہیں کیا، بلکہ ان اداروں کو ملنے والی حکومتی مالی امداد پر پابندی لگانے کی سفارش کی ہے کیونکہ ان کے مطابق یہ مدارس غریب مسلم بچوں کو معیاری اور سائنسی تعلیم فراہم نہیں کر رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان مدارس میں بچوں کو مذہبی تعلیم پر زور دیا جا رہا ہے جبکہ انہیں سیکولر تعلیم کے مساوی مواقع ملنے چاہئیں۔
این سی پی سی آر کی جانب سے جاری کردہ ایک حالیہ رپورٹ میں مدارس کی تعلیمی پالیسیوں پر سوال اٹھائے گئے تھے، جس میں کہا گیا تھا کہ یہ ادارے بچوں کو بنیادی تعلیم سے محروم رکھتے ہیں اور ان کی مجموعی نشوونما کے لیے نقصاندہ ہیں۔ تاہم اس رپورٹ کو مسلم رہنماؤں نے سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ سماج وادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو اور دیگر کئی سیاسی رہنماؤں نے NCPCR اور حکمراں جماعت بی جے پی پر الزام لگایا کہ وہ مسلم اداروں کو نشانہ بنا رہی ہے۔
سپریم کورٹ کا حکم
سپریم کورٹ نے مسلم تنظیم کو اتر پردیش اور تریپورہ کے علاوہ دیگر ریاستوں کو بھی فریق بنانے کی اجازت دی، تاکہ یہ مسئلہ ملک بھر میں مدارس سے متعلق حل ہو سکے۔