top of page

بوڑھے والدین کو مشین سمجھنے والی زن مریداولاد !

3 November 2024


والدین کی سب سے بڑی آرزو اولاد ہوتی ہے ۔اولاد سے محبت فطری جذبہ ہے چنانچہ ان کی پرورش  اور ان پر خرچ کرنےکے لیے ابھارنے کی ضرورت نہیں پڑتی ۔حمل سے لے کر بچے کی ولایت پر ماں کو تکلیف سہناپڑتا اور والد کو روپیہ خرچ کرنا ۔ سات دنوں میں عقیہ،چند مہینوں میں ختنہ،دودھ اور دوائیں ۔تین سال کا ہوا نہیں کہ اسکول میں داخل ،ماہانہ تگڑی فیس ،پھر ٹیوشن،عربی کلاسیز  کی فیس ۔19/20 سال میں کالج ،گریجویشن کے لیے ڈونیشن اور بھاری فیس،اسی اثنا میں  خود کے مکان کی خریداری کے اخرات اور ماہانہ  EMI۔ڈگری  مکمل ہوئی تو شادی کا ارمان اور اس کی فکر اوروالدین کی جمع پونجی سےلاکھوں کا خرچ ۔ لڑکا تو ابھی ابھی کمانے لگا ہے ۔27/26 سال کی عمر لڑکے کی ہوئ تو باپ بھی 50/55 سال کا ہوگیا ۔دو،چار سال جوائنٹ فیمیلی میں جیسے تیسے گزرے کہ بہو نے الگ رہنے ،والدیں کے لیے کام نہ کرنے ،ان کی خدمت نہ کرنے پر اسلام کے فتویٰ صادر کردیے ۔ساس سسر کو بہو کو کچھ کہنے سننے ،بولنے کا کوئی حق اسلام نےنہیں دیا  ،وہ بس اپنے شوہر کی سنے گی!

 مجھ کو تھکنے نہیں دیتا یہ ضرورت  کا پہاڑ

میرے بچے مجھے بوڑھا نہیں ہونے دیتے

اور اب یہ منظر ہے کہ

پڑا جب وقت گلوں پر تو لہو ہم نے دیا

بہار آئی ہے تو کہتے ہیں تیرا کام نہیں

 25سال کی پرورش  اور تعلیم پر باپ نے کتنا خرچ خوشی خوشی کیا کوئی حساب ہے ۔اپنے بیٹے کے برتھ ڈے ،شوق ،فیشن ،مشغلوں Hobbies پر خرچ کا تذکرہ نہیں ۔تکالیف اٹھائ ،اذیت سہی،مقروض ہوا ،انا کو ٹھیس پہنچی اس کا کوئی اندازہ نہیں ۔

باپ 60 سال کا ہوگیا ،ضعف آگیا ۔بیماریوں نے حملہ کردیا،خدمت اور سہارے کی ضرورت ہے تو بیٹا گھر  سے دور الگ رہتا ہے۔ اس کے اپنے بیوی بچے اور شوق موج ہیں ۔والدین اگر موظف penssioner ہیں تو اپنا خرچ اٹھالیتے ہیں۔اس پر بھی بیٹے بہو کی تمنا اور شکوہ کہ "ساری پینشن دوسرے کھا جارہے اور ہم کو کچھ نہیں ملتا؟"

اولڈ ایج ہوم کی ضرورت کیوں

والدین کی لاچاری ہے کہ اولڈ ایج ہوم میں اپنوں سے دور دن کاٹ رہے ہیں ۔ والد کسی بیٹے کے گھر تو والدہ کو بیٹی سنبھال رہی ہے ۔جس بیٹے کو گھر کی نگرانی ،کام کاج کرانے کی ضرورت ہے اس نے ماں کو بے دام غلام بنا رکھا ہے ۔کسی  جو باہر کے سودا سلف کام کاج اور دیکھ ریکھ کی ضرورت ہے اس نے باپ کو رکھ لیا ۔بہو بیٹوں کے ہاتھ ان کی بے بسی یہ اولاد کی بد بختی کی علامت ہے ۔

اے لوگو!والدین کے دل آب گینوں کی طرح ہوتے ہیں ۔تمہارے طعنے ،بد تمیزی ، بد زبانی اونچی آواز اوران کو نظر انداز کرنے سے انھیں تکلیف  پہنچتی  ہے۔

۔ اپنی زندگی بچوں پر لگادینے پر اب افسوس ہوتا ہے لیکن وہ اس عمر میں بے بس ہوتے ہیں اور خاموشی اختیار کر لیتے ہیں ۔گھٹ گھٹ مرتے اور تنہائی میں روتے ہیں۔ لوگو!ان کے ساتھ ہمیشہ نیک سلوک کیا کرو۔

خزاں کی ویران وسعتوں کو ،بہار کا جل ترنگ دے دے

آج اس کی ضرورت کیوں پیش آرہی ہے ۔ کیا پچاس ساٹھ سال پہلے معاشرے میں ایسی مادیت پرستی ،خود غرضی  اور بلاوجہ کی ضرورت،شوق اور خرچ تھے ؟؟کیا بچے جانتے نہیں کی والدین کی خدمت پر جنت کی بشارت دی ہے ہمارے نبی صلعم نے۔قرآن کی تعلیم یاد نہیں کہ  "اگر وہ بوڑھے ہو جائیں تو انھیں آف تک نہ کہو ،ان کے سامنے بچھے رہو" ۔اور یہ کہ "تم اور تمہارا مال تمہارے والدین کا ہے"۔ماں کی خدمت اور باپ کا حکم ماننا  مقدم ہے ۔ ان ساری تعلیمات  کے باوجود آج معاشرے میں بوڑھے والدین کی کیا  صورتحال ہے۔ سازشیں کرکے ان کا آخری سہارا ان کے ذاتی مکان کو ان کی حیات میں فروخت کرکے اپنے حصے بخرے کرلیے جاتے ہیں ۔والدین کی پونجی زیور ہے تو اس پر بھی منحوس نگاہیں ہیں اور بہوؤں کے طعنے کہ اب بڑھاپے میں کیا شوق کریں گے۔ یہ بھی ہمارے اور ہمارے بچوّں پر نچھاور کرکے تہی دست ،کنگلے بن جاؤ۔ یہ اسیر زلفی اور زن مریدی کے بہلاوےہیں ۔ سوال  یہ ہے کہ پھربوڑھے ماں باپ کے حصہ میں کیا آیا؟؟؟

سارے سماج میں بہت سےایسےنہیں ،لیکن جو دیکھنے سننے کو مل رہا ہے وہ بھی کم نہیں ۔جب بچہ کچھ نہیں تھا تو والدین نے اپنا سب کچھ اس پر صرف کردیا۔ اب وہ کچھ بن گیا ہے تو  اب کیوں خرچ نہیں کرتا اپنے محسنین پراپنا مال ،وقت اور خدمت؟کیوں ان کے قرض کو فرض سمجھ کر ادا نہیں کرتا؟ کیوں نہیں بنالیتا اپنی جنت؟اور ان کی دعائیں لے کر اپنی  دنیا وآخرت؟ سوال تربیت کا بھی ہے،سرشت اور ضمیر کابھی ۔۔۔۔۔۔اور آنکھوں پر پڑی پٹی کا بھی ۔

والدین اور اولاد سے دو باتیں

(1)خواہ مخواہ کی تنقید ،خامیاں نکالنے کی بجائے خوبیوں کی تلاش اور قدر دانی۔اس سے آپ کو Validation حاصل ہوگا۔مسئلہ کو سرد خانے میں ڈال دینے کی حکمت اور قابل ملامت بات ٹال دینے کا ہنر۔مثبت سوچ۔اپنی ضروریات کم کریں دوسروں پر منحصر رہ نے کی عادت ختم کریں ۔

(2)پنی سوچ اور نظریات میں لچک پیدا کریں ۔بہو کے معاملات میں بے جا دخل اندازی نہ کریں۔اس کے میکے کی برائ نہ کریں ،میکے کی طرف سے تربیت کی کمی کا طعنہ نہ دیں۔میکے جانے میں روک ٹوک نہ کریں ۔کسی حد تک بہو کے مزاج کے مطابق آزادی عطا کریں ورنہ پھر آزادی کی جد وجہد شروع ہو جاتی ہے ۔بیٹے بہو کی خلوت ،ارمان ،شوق،ناز نخرے،الھڑپن پر گرفت کی بجائے صرف نظر سے کام لیں ۔

یقین ہو تو کوئی بھی راستہ نکلتا ہے

ہوا کی اوٹ بھی لے کر چراغ جلتا ہے

 (3)بچوّں کی محبت میں اور جذبات میں بہہ آکر اپنے اختیارات سے کبھی بھی بے دخل نہ ہوجائیں۔بیٹے بہو کی چکنی چپڑی باتوں اور جھانسے میں آکر کبھی بھی اپنی ملکیت کو ان کے نام اپنی حیات میں منتقل کر کے بے بس نہ ہو جائیں ۔ اپنی جوانی اور اچھے دنوں میں اپنے بڑھاپے کے لیے الگ سے کچھ  پس انداز کر رکھیں ۔اس کی اچھی شکل زیور ،شئیر ،باونڈ،قطعہ ارضی ہو سکتے ہیں ۔(4) پیاری بہو اور لاڈلے بیٹےتم اور تمہارا مال بھی تمہارے باپ کا ہے ساس سسر کی حیثیت ماں باپ کی سی ہے۔

جو دلوں کو فتح کرکے وہی فاتحِ زمانہ

ماں باپ کے رخصت ہو جانے کے بعد ان کا مال بھی تمہارا اور نام بھی تمہارا ہے ۔

بلندی کی تمنا ہے تو سر اپنا جھکا لیجے

تکبر سے کسی کو عظمت و عزت نہیں ملتی

از :عبد العظیم رحمانی ملکاپوری

9224599910

bottom of page