ممبئی 28ستمبر، ممبئی کی کچی آبادیوں میں رہنے والے طلباء کو تعلیم کے حصول میں کئی رکاوٹیں درپیش ہیں، جن کا بنیادی سبب میونسپل کارپوریشن اور کلکٹر کی جانب سے عائد کردہ سخت شرائط ہیں۔ ان بستیوں میں اسکولوں کی تعمیر کے لیے درکار قانونی تقاضے، جیسے کہ زمین کے سرٹیفکیٹ، پراپرٹی کارڈ، اور لیز کے معاہدے، طلباء کی تعلیمی ضروریات کو متاثر کر رہے ہیں۔ایم ایل اے نواب ملک نے اس سنگین مسئلے کو حل کرنے کے لیے مہاراشٹر کے وزیر تعلیم دیپک کیسرکرسے درخواست کی ہے۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ موجودہ قوانین میں ترمیم کی جائے تاکہ کچی آبادیوں کے غریب طلباء کا تعلیم کا حق یقینی بنایا جا سکے۔نواب ملک کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومتی اصول کے تحت اسکول کی تعمیر کے لیے 5000 مربع فٹ زمین کی ضرورت ہوتی ہے، جو کہ کچی آبادیوں میں اکثر دستیاب نہیں ہوتی۔ یہ صورتحال ان طلباء کی تعلیمی ترقی میں بڑی رکاوٹ ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اگر اس زمین کی ضرورت کو کم کرکے 2500 مربع فٹ کیا جائے تو یہ کچی آبادیوں میں تعلیم کے مواقع کو بڑھانے میں مددگار ثابت ہوگا۔نواب ملک نے مزید کہا کہ کچی آبادیوں میں موجود زمین کی محدودیت کو مدنظر رکھتے ہوئے، اس اصول میں تبدیلی ناگزیر ہے۔ انہوں نے یہ بھی تجویز دی کہ جس طرح یونیورسٹیوں کو عمارتیں بنانے کی اجازت دی گئی ہے، اسی طرح اسکولوں کے لیے بھی نرمی فراہم کی جائے تاکہ معیاری تعلیم کی فراہمی ممکن ہو سکے۔نواب ملک نے اس بات کی نشاندہی کی کہ بعض زمینیں میونسپل کارپوریشن کے دائرہ اختیار میں آتی ہیں، جبکہ دیگر علاقے کلکٹریٹ کے تحت آتے ہیں۔ اس فرق کی وجہ سے اسکولوں کے لیے NOC (No Objection Certificate) حاصل کرنے میں مشکلات پیش آتی ہیں۔ انہوں نے تجویز دی کہ دونوں اداروں سے NOC حاصل کرنے کے عمل کو آسان اور تیز کیا جائے تاکہ تعلیمی سرگرمیاں بغیر کسی رکاوٹ کے جاری رہ سکیں۔نواب ملک نے وزیر تعلیم سے اپیل کی کہ "یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ غریب بچوں کو تعلیم کے حق سے محروم نہ ہونے دے۔ رولز میں ترمیم کرکے ان بچوں کو مناسب تعلیم حاصل کرنے کا موقع فراہم کیا جائے۔"اگر حکومت اس مسئلے پر سنجیدگی سے غور کرتی ہے اور قوانین میں ضروری تبدیلیاں کرتی ہے تو ممبئی کی کچی بستیوں کے ہزاروں طلباء کو تعلیم کے حق سے مستفید ہونے کا موقع ملے گا۔ یہ اقدام کچی آبادیوں کے طلباء کے لیے ایک بڑی راحت ثابت ہو سکتا ہے۔
top of page
bottom of page