top of page

" اردو گھر۔۔۔ افتتاح نہ ہوا۔۔۔ ایک تماشا ہوا۔۔۔

سولاپور: (ایوب نلامنڈو )شہر سولاپور اردو زبان و ادب کی ترقی، ترویج و اشاعت میں ملک میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔ اردو میلہ، کل ہند اردو ادبی کانفرنس، کل ہند اردو ڈرامہ فیسٹیول، اردو تعلیمی کانفرنس، مشاعرے، ڈرامہ مقابلے، اردو کتابوں کا اجراء یہ تمام اس شہر نے دیئے ہیں۔ ریاستی حکومت نے مہاراشٹر کے اردو زبان و ادب کی ترقی میں اہم رول ادا کرتے والے چند اضلاع کو منتخب کر اردو والوں کے لئے اردو گھر بنانے کا اعلان کیا۔     ۲۰۱۳ میں سولاپور کے سابق مرکزی وزیر داخلہ سشیل کمار شندے صاحب کے ہاتھوں اس کی سنگ بنیاد رکھی گئی۔ لیکن حکومتوں کی تبدیلی نے اس کی تعمیر میں تاخیر کا ذریعہ بن گئی۔ محبان اردو نے کئی مرتبہ اس کی تعمیر کو پائے تکمیل تک پہنچانے کے لئے احتجاج کئے۔تب کہیں جا کر دس سال کے بعد اردو گھر مکمل ہوا۔ انتظار شروع ہوا اس کے افتتاح کا کئی مرتبہ تاریخ مقرر ہوئی لیکن کسی نہ کسی وجہ سے ملتوی ہوتی گئی۔آخر کار اردو کی بیٹی مونیکا سنہ ٹھاکور نے اس کے افتتاح کا پرچم بلند کیا اور اپنی ہم نوا کمیٹی تشکیل دی اور مورخہ ۷ مارچ ۲۰۲۴ کو اردو گھر کا افتتاح ریاستی وزیر اوقاف و اردو ساہتیہ اکادمی جناب عبدالستار صاحب کے دست خاص اور وزیر سرپرست جناب چندرکانت پاٹل صاحب کی صدارت میں منعقد ہوا جس میں مہمان خصوصی سولاپور، ماڑا اور عثمان آباد کے رکن پارلیمنٹ اور سولاپور ضلع کے تمام رکن اسمبلی مدعو تھے۔اس اردو گھر کمیٹی کے صدر سولاپور کے کلکٹر اور منتظمہ کمیٹی کے صدر محترمہ مونیکا سنہ ٹھاکور کی قیادت میں ہونا تھا۔    اردو زبان اور اردو والوں سے بے حسی کی اتنی بڑی مثال آپ کو پورے ملک میں کہیں نہیں مل سکتی کہ اس اردو گھر کے افتتاح میں ایک بھی مہمان تشریف نہیں لایا بلکہ اردو گھر کمیٹی کے صدر نے بھی افتتاح سے منہ موڑ لیا۔ لیکن اردو زبان والوں نے اس بے حسی پر افتتاح کے جلسے میں شامل نہ ہو کر اپنے غصے کا اظہار تک نہیں کیا۔شاید ہی بھارت میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہےکہ منتظمہ کمیٹی کی صدر نے خود اپنے ہی ہاتھوں افتتاح کیا ہو۔     گھر اردو کا لیکن اردو کا کہیں نام و نشان بھی دکھائی نہیں دیا۔ اردو گھر کے افتتاح پر مشاعرہ جس میں ہندی کے شاعر شہر سے کسی شاعر کو مدعو نہیں کیا گیا۔ اردو گھر میں لائبریری تو ہے کتابوں کے بغیر یہ اردو اور اردو کے ساتھ تماشا نہیں تو اور کیا ہے۔      شہر میں اردو زبان و ادب کا کام کرنے والے تنظیموں نے اور شعراء کرام اور اردو داں طبقے نے اس پر سخت تنقید کرتے ہوئے غصے کا اظہار کیا ہے۔


Comments


bottom of page